چین کی غربت خاتمے کی حکمت عملی قابلِ ستائش اور پاکستان کے لئے نمونہ عمل

چین کی غربت خاتمے کی حکمت عملی قابلِ ستائش اور پاکستان کے لئے نمونہ عمل

 

اسلام آباد ، 10 نومبر ، 2020: پاک چائینہ انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) اور لاہور یونیورسٹی برائے  منیجمنٹ سائنسز (لَمس)  کی سینٹر فار چائنیز لیگل اسٹڈیز نے “غربت کاخاتمہ، کووڈ – 19 اور سی پیک” کے عنوان سے  پی سی آئی کی ‘شاہراہِ ریشم کے دیرینہ دوست’ مہم کے  تحت ایک ورچوئل کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کی ۔ تفصیلات کے مطابق اس کانفرنس میں پاکستان اور چین کے نامور مقررین اور پورے پاکستان کے طلباء ، اساتذہ اور محققین پر مشتمل   ناظرین نے شرکت کی۔اس دوران غربت کے خاتمے سے متعلق وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر مہمان خصوصی اور نمایاں مقرر تھیں۔ کانفرنس میں پاکستان کی موجودہ غربت کے خاتمے کی حکمت عملی ، کووڈ- 19 کے  بعدغربت کے خلاف پاکستان کی  جنگ پر اثرات اور پڑوسی ممالک میں غربت کے خاتمے کے لئے سی پیک کے کردار پر  تفصیلی  روشنی ڈالی  گئی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد چین کی غربت  خاتمے کی حکمت عملی کا احاطہ کرنا تھا تاکہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ پاکستان چین کے بہترین طریق کار سے کس طرح استفادہ حاصل کر سکتا ہے اور اس کو  عملی طور پر بروئے کار

 

لاسکتا ہے۔واضح رہے کہ اس کانفرنس کی نظامت کے فرائض سینٹر برائے چینی قانونی علوم کے ڈائریکٹر پروفیسر سکندر شاہ نے   سر انجام  دئیے۔

 

اس کانفرنس میں پارلیمانی خصوصی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے چیئرمین اور پاک-چائینہ انسٹیٹیوٹ کے بانی  چیئرمین   سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے افتتاحی کلمات میں  کہا کہ چین کی غربت خاتمے کی حکمت عملی سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ 800 ملین افراد کو غربت سے نکال کر  چین نے  ایک تاریخ رقم کی ہے۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس  کے ضمن  میں بھی  چین نے بروقت اقدامات ، فیصلہ کن قیادت اور عوام کے تعاون کی  بدولت کامیابی  حاصل کی ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو اکیسویں صدی کا سب سے اہم سفارتی اور ترقیاتی اقدام قرار دیا  جس  کا سی پیک  ایک اہم ستون ہے۔

 

اپنی کلیدی تقریر میں  غربت کے خاتمے سے متعلق وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے شرکاء کو پاکستان کی غربت کے خاتمے کی حکمت عملی کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ چینی تجربات کی روشنی میں غربت کے مسئلے کو بیان کرنا خوش آئند اور نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ . سی پیک کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی پیک اقتصادی نمو کاایک  اہم نمونہ ہے اور اس سے روزگار کے بہت سارے مواقع میسر آئیں گے جس سے غربت کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ . انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان  نے اپنی غربت  خاتمے کی ایک حکمت عملی   وضع کی ہے جسے “احساس پروگرام” کہا جاتا ہے جس میں 140 اقدام اور پروگرام شامل ہیں۔ مزید برآں  انہوں نے کہا کہ حکومت نے احساساتی حکمت عملی میں شامل کرنے کے لئے مزید عملی منصوبوں کا منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے  پاکستان میں غذائی عدم تحفظ میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ  غربت سے متاثرگھرانوںکا اندازہ لگانے کے لئے ملک گیر ڈیجیٹل سروے کیا جارہا ہے اور حکومت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو شامل کرنے کے لئے جامع حکمت عملی کے ساتھ معاشرتی تحفظ کو آئین میں بنیادی حق کے طور پر شامل کرنے کی خواہاں ہے۔

 

پروفیسر سکندر شاہ ، ڈائریکٹر لَمس سنٹر برائے چینی قانونی علوم  نے حکومت کے غربت کے خاتمے کی حکمت عملی کے ضمن میں  جامعہ کی  جانب سےحکومت کو مکمل مدد کی پیش کش کی۔

 

نامورپیکنگ یونیورسٹی کی ماہر معاشیات پروفیسر ژیا جینجی نے شرکاء کو چین کی غربت  خاتمے کی حکمت عملی کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ لاکھوں دیہی مزدور شہروں میں نقل مکانی کرکے مزدوری کررہےہیں اور اسی  سبب انہیں غربت سے نکال دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی غربت خاتمہ کی مہم کے دوران چینی حکومت نے ایک آسان کثیر جہتی غربت کے معیار کو اپنایا ۔ یعنی ٹو- ناٹ- واریز(کھانے اور لباس کے بارے میں فکر مند نہیں) اور تھری گارنٹیز   یعنی ( نو سال تک کے بچوں  اور سکول کی عمر کے نوجوانوں کے لئے تعلیم کی ضمانت ، طبی دیکھ بھال اور رہائش کی حفاظت) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ  ملک میں اصلاحات  کی شروعات کے بعد گذشتہ 40 سالوں میں چین میں تقریبا 800 ملین غریب افراد کو غربت کی زندگی سے  نکالا گیا ہے۔

 

اس کانفرنس   میں لَمس کے اسسٹنٹ پروفیسر لاء پروفیسر عزیر جے کیانی نے کہا کہ غربت کے خاتمے کے چینی تجربے کو عام قانون  کی رو سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مزید  برآں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چین سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ مثال کے طور پر  پاکستان چین کے بیوروکریٹک اصلاحات  کے تناظر میں  تجربات سے  بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

 

سابق  پاکستانی  سفیر برائے چین مسعود خالد نے کہا کہ چین تقریباََ  ہر شعبے میں بڑی ترقی کر رہا ہے اور اب عالمی معیشت بن  چکاہے۔ چین نے تقریبا ناخواندگی کو ختم کردیا ہے۔ چین کے تجربات سے پاکستان کس طرح سیکھ سکتا ہے اس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  پاکستان کو چین کی طرح اپنا گورننس سسٹم وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاحت کے شعبے میں بڑی صلاحیت موجود ہے ۔علاوہ ازیں انہوں نے چین میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبا ءسے سیکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو انفراسٹرکچر کی  بحالی کا ایک بہترین موقع قرار دیا۔

 

ڈاکٹر وقار احمد ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی  نےکووڈ-19 بحالی کے بعد معیشت کی بحالی کے لئے پاکستان کے لئے تین اہم آپشنز پیش کیے۔ جن میں سب سے پہلے مختلف ترقیاتی شراکت داروں اور آئی ایم ایف کے ساتھ وابستگی کے مطابق ملک  میں ساختی اصلاحات کی  ضرورت  پر زور دیا۔ دوئم ، پاکستان کو سی پیک  کے دوسرے مرحلے خاص طور پر خصوصی  اقتصادی زونز سے حاصل ہونے والے فوائد  کے حصول کی ضرورت پر زور دیا ۔اور سوئم  پاکستان کو مالی نظم و ضبط کی ضرورت  پر روشنی ڈالی۔

 

اس کانفرنس کے  اختتام پراپنے اختتامی کلمات میں  پاک چائینہ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر   مصطفی  حیدر سید نے کہا کہ سی پیک  چند شعبوں  تک ہی محدود  منصوبہ نہیں بلکہ اس  کا دائرہ کار نہایت وسیع ہے  اوراس میں سماجی  ترقی اور غربت خاتمے سے متعلق ایک مشترکہ ورکنگ گروپ  موجودہے۔ انہوں نے سی پیک کے تحت کثیر جہتی سماجی و اقتصادی منصوبوں کے بارے میں شرکا ءکو آگاہ کرتے  ہوئے کہا کہ یہ منصوبے مقامی  آبادی کے لئے   خوشحالی کے بہت سارے مواقع پیدا کررہے ہیں۔

 

خیال رہے کہ کانفرنس کے اختتام پر  شرکاء کی طرف سے ایک جامع سوال / جواب  کاسیشن  بھی ہوا  جو 30 منٹ سے زیادہ جاری رہا۔

 

اسلام آباد ، 10 نومبر ، 2020: پاک چائینہ انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) اور لاہور یونیورسٹی برائے  منیجمنٹ سائنسز (لَمس)  کی سینٹر فار چائنیز لیگل اسٹڈیز نے “غربت کاخاتمہ، کووڈ – 19 اور سی پیک” کے عنوان سے  پی سی آئی کی ‘شاہراہِ ریشم کے دیرینہ دوست’ مہم کے  تحت ایک ورچوئل کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کی ۔ تفصیلات کے مطابق اس کانفرنس میں پاکستان اور چین کے نامور مقررین اور پورے پاکستان کے طلباء ، اساتذہ اور محققین پر مشتمل   ناظرین نے شرکت کی۔اس دوران غربت کے خاتمے سے متعلق وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر مہمان خصوصی اور نمایاں مقرر تھیں۔ کانفرنس میں پاکستان کی موجودہ غربت کے خاتمے کی حکمت عملی ، کووڈ- 19 کے  بعدغربت کے خلاف پاکستان کی  جنگ پر اثرات اور پڑوسی ممالک میں غربت کے خاتمے کے لئے سی پیک کے کردار پر  تفصیلی  روشنی ڈالی  گئی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد چین کی غربت  خاتمے کی حکمت عملی کا احاطہ کرنا تھا تاکہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ پاکستان چین کے بہترین طریق کار سے کس طرح استفادہ حاصل کر سکتا ہے اور اس کو  عملی طور پر بروئے کار

 

لاسکتا ہے۔واضح رہے کہ اس کانفرنس کی نظامت کے فرائض سینٹر برائے چینی قانونی علوم کے ڈائریکٹر پروفیسر سکندر شاہ نے   سر انجام  دئیے۔

 

اس کانفرنس میں پارلیمانی خصوصی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے چیئرمین اور پاک-چائینہ انسٹیٹیوٹ کے بانی  چیئرمین   سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے افتتاحی کلمات میں  کہا کہ چین کی غربت خاتمے کی حکمت عملی سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ 800 ملین افراد کو غربت سے نکال کر  چین نے  ایک تاریخ رقم کی ہے۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس  کے ضمن  میں بھی  چین نے بروقت اقدامات ، فیصلہ کن قیادت اور عوام کے تعاون کی  بدولت کامیابی  حاصل کی ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو اکیسویں صدی کا سب سے اہم سفارتی اور ترقیاتی اقدام قرار دیا  جس  کا سی پیک  ایک اہم ستون ہے۔

 

اپنی کلیدی تقریر میں  غربت کے خاتمے سے متعلق وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے شرکاء کو پاکستان کی غربت کے خاتمے کی حکمت عملی کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ چینی تجربات کی روشنی میں غربت کے مسئلے کو بیان کرنا خوش آئند اور نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ . سی پیک کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی پیک اقتصادی نمو کاایک  اہم نمونہ ہے اور اس سے روزگار کے بہت سارے مواقع میسر آئیں گے جس سے غربت کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ . انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان  نے اپنی غربت  خاتمے کی ایک حکمت عملی   وضع کی ہے جسے “احساس پروگرام” کہا جاتا ہے جس میں 140 اقدام اور پروگرام شامل ہیں۔ مزید برآں  انہوں نے کہا کہ حکومت نے احساساتی حکمت عملی میں شامل کرنے کے لئے مزید عملی منصوبوں کا منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے  پاکستان میں غذائی عدم تحفظ میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ  غربت سے متاثرگھرانوںکا اندازہ لگانے کے لئے ملک گیر ڈیجیٹل سروے کیا جارہا ہے اور حکومت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو شامل کرنے کے لئے جامع حکمت عملی کے ساتھ معاشرتی تحفظ کو آئین میں بنیادی حق کے طور پر شامل کرنے کی خواہاں ہے۔

 

پروفیسر سکندر شاہ ، ڈائریکٹر لَمس سنٹر برائے چینی قانونی علوم  نے حکومت کے غربت کے خاتمے کی حکمت عملی کے ضمن میں  جامعہ کی  جانب سےحکومت کو مکمل مدد کی پیش کش کی۔

 

نامورپیکنگ یونیورسٹی کی ماہر معاشیات پروفیسر ژیا جینجی نے شرکاء کو چین کی غربت  خاتمے کی حکمت عملی کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ لاکھوں دیہی مزدور شہروں میں نقل مکانی کرکے مزدوری کررہےہیں اور اسی  سبب انہیں غربت سے نکال دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی غربت خاتمہ کی مہم کے دوران چینی حکومت نے ایک آسان کثیر جہتی غربت کے معیار کو اپنایا ۔ یعنی ٹو- ناٹ- واریز(کھانے اور لباس کے بارے میں فکر مند نہیں) اور تھری گارنٹیز   یعنی ( نو سال تک کے بچوں  اور سکول کی عمر کے نوجوانوں کے لئے تعلیم کی ضمانت ، طبی دیکھ بھال اور رہائش کی حفاظت) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ  ملک میں اصلاحات  کی شروعات کے بعد گذشتہ 40 سالوں میں چین میں تقریبا 800 ملین غریب افراد کو غربت کی زندگی سے  نکالا گیا ہے۔

 

اس کانفرنس   میں لَمس کے اسسٹنٹ پروفیسر لاء پروفیسر عزیر جے کیانی نے کہا کہ غربت کے خاتمے کے چینی تجربے کو عام قانون  کی رو سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مزید  برآں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چین سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ مثال کے طور پر  پاکستان چین کے بیوروکریٹک اصلاحات  کے تناظر میں  تجربات سے  بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

 

سابق  پاکستانی  سفیر برائے چین مسعود خالد نے کہا کہ چین تقریباََ  ہر شعبے میں بڑی ترقی کر رہا ہے اور اب عالمی معیشت بن  چکاہے۔ چین نے تقریبا ناخواندگی کو ختم کردیا ہے۔ چین کے تجربات سے پاکستان کس طرح سیکھ سکتا ہے اس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  پاکستان کو چین کی طرح اپنا گورننس سسٹم وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاحت کے شعبے میں بڑی صلاحیت موجود ہے ۔علاوہ ازیں انہوں نے چین میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبا ءسے سیکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو انفراسٹرکچر کی  بحالی کا ایک بہترین موقع قرار دیا۔

 

ڈاکٹر وقار احمد ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی  نےکووڈ-19 بحالی کے بعد معیشت کی بحالی کے لئے پاکستان کے لئے تین اہم آپشنز پیش کیے۔ جن میں سب سے پہلے مختلف ترقیاتی شراکت داروں اور آئی ایم ایف کے ساتھ وابستگی کے مطابق ملک  میں ساختی اصلاحات کی  ضرورت  پر زور دیا۔ دوئم ، پاکستان کو سی پیک  کے دوسرے مرحلے خاص طور پر خصوصی  اقتصادی زونز سے حاصل ہونے والے فوائد  کے حصول کی ضرورت پر زور دیا ۔اور سوئم  پاکستان کو مالی نظم و ضبط کی ضرورت  پر روشنی ڈالی۔

 

اس کانفرنس کے  اختتام پراپنے اختتامی کلمات میں  پاک چائینہ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر   مصطفی  حیدر سید نے کہا کہ سی پیک  چند شعبوں  تک ہی محدود  منصوبہ نہیں بلکہ اس  کا دائرہ کار نہایت وسیع ہے  اوراس میں سماجی  ترقی اور غربت خاتمے سے متعلق ایک مشترکہ ورکنگ گروپ  موجودہے۔ انہوں نے سی پیک کے تحت کثیر جہتی سماجی و اقتصادی منصوبوں کے بارے میں شرکا ءکو آگاہ کرتے  ہوئے کہا کہ یہ منصوبے مقامی  آبادی کے لئے   خوشحالی کے بہت سارے مواقع پیدا کررہے ہیں۔

 

خیال رہے کہ کانفرنس کے اختتام پر  شرکاء کی طرف سے ایک جامع سوال / جواب  کاسیشن  بھی ہوا  جو 30 منٹ سے زیادہ جاری رہا۔

 

Date : 
Wednesday 11 November 2020
Source : 
cpecinfo.com
Tag : 
Significance Of Gwadar,
Share :